Sirf Ek Bandaa Kaafi Hai (2023) | Indian Movie Review & Explanation in Urdu/Hindi
Sirf Ek Bandaa Kaafi Hai (2023) | Indian Movie Review & Explanation in Urdu/Hindi
A Blog by Muhammad Talha Shafiq
"صرف ایک بندہ کافی ہے" ہندوستانی فلم ہے جو پچھلے سال ریلیز کی گئی تھی۔ فلم کی کہانی حقیقی واقعات پر مبنی ہے جس میں ہندوستان کے سب سے بڑے مذہبی علماء میں سے ایک نے ایک نابالغ بچی سے زیادتی کی۔ وہ شخص انتہائی طاقتور تھا جس کے ماننے والے کروڑوں میں تھے جن میں حکومتی نمائندے، انتظامی و قانونی افسران بھی شامل تھے۔
جیسا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے، اس کیس کو بھی تقریباً دبا دیا گیا۔ گواہوں اور شہادتوں کو غائب کر دیا گیا اور سارے واقعے پہ مذہب کی گرد ایسے چڑھائی گئی کہ کوئی ایک فرد بھی اس کا نام لینے کو تیار نہیں تھا۔
لیکن پھر ایک ایسا کرشمہ ہوا جو ہندوستان کو ہم پاکستان جیسے ممالک سے منفرد بناتا ہے اور اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ وہاں کم از کم ایک آواز ایسی ضرور ہوتی ہے جو ہر بار ایسوں کی مخالفت کرتی ہے۔ اور اس بار یہ آواز ایک غیر معروف وکیل کی شکل میں سامنے آئی جس نے سرکاری و نجی سطح پر مشہور اور خباثت میں لتھڑے اس شخص کو عدالت اور عوام میں ننگا کر دیا۔ وکیل صاحب کا نام پونم چند سولنکی المعروف پی سی سولنکی ہے اور فلم میں یہ کردار منوج باجپئی نے نبھایا ہے۔ جبکہ ملزم اور بعد میں مجرم اس وقت جودھپور جیل میں سزا کاٹ رہا ہے اور مشورہ ہے کہ ان جیسوں کا تعارف کبھی نہیں کرانا چاہیے۔ ایسے افراد جیل کی کال کوٹھری میں ہی ٹھیک ہے۔ اس فلم کی کہانی، جو کہ نہیں بتانی چاہیے تھی، دیکھنے لائق ہے۔ خصوصاً پی سی سولنکی کی محنت، اسے درپیش مشکلات اور اس کا طریقہ کار انقلاب پسندوں کو دیکھنا اور پرکھنا چاہیے۔
چونکہ اس فلم کی کہانی میں ملزم ایک مذہبی لیڈر تھا اور وہ اپنے جرم کو مذہب کی آڑ میں چھپا رہا تھا، اس لیے منوج باجپئی فلم کے آخر میں رامائن سے ایک واقعہ بیان کرتا ہے جو یہاں لکھ رہا ہوں۔
"رام، سیتا اور راون کے واقعہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب راون اپنے گناہ پہ شرمسار ہوا اور شیو سے معافی کا خواستگار لیکن شیو نے اسے معاف کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ راون کی حالت دیکھ کر پاروتی نے شیو سے کہا کہ آپ اتنے نرم دل ہونے کے باوجود راون کو معافی کیوں نہیں دے رہے۔ آخر کار وہ بھی آپ کا ہی بھگت ہے جو اگر غلطی کر بیٹھا ہے تو اب اسے معافی ملنی چاہیے۔ یہ سن کر شیو نے کہا کہ غلط اعمال (گناہوں) کی تین اقسام ہوتی ہیں۔ پہلی وہ جسے غلطی کہا جاتا ہے جو کوئی فرد جان بوجھ کر نہیں کرتا اور ایسی غلطیوں کی معافی دی جانی چاہیے۔ دوسرا غلط عمل وہ ہے جو دیدہ دانستہ کیا جائے جیسے کسی کی جان لینا یا اغواء کرنا وغیرہ۔ اگر ان معاملات میں شریک کوئی پشیمان ہو اور معافی کی درخواست کرے تو اسے بھی معاف کرنے کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ تیسرا گناہ وہ ہے جس کے اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوتے رہتے ہیں اور آنے والی ہر پیڑھی کو جکڑ لیتے ہیں۔ تیسرے گناہ کی معافی کسی صورت نہیں دی جا سکتی۔ اس پر پاروتی حیران ہو کر بولیں کہ راون نے بھی تو سیتا کا اغواء کیا تھا اور اب وہ معافی کا طالب بھی ہے تو آپ اسے معاف کیوں نہیں کر رہے؟؟
شیو نے کہا کہ اگر راون سیتا کا اغواء راون بن کر کرتا تو میں اسے معاف کر دیتا لیکن راون نے بھگت بن کر رام، سیتا، عوام، اپنے ساتھیوں کا اور ہمارا اعتماد حاصل کیا اور اس اعتماد کے بل بوتے پر سیتا کو اغواء کیا۔ راون کے اس فعل سے اب لوگ کبھی سادھوؤں پہ اعتماد نہیں کریں گے۔ راون نے انسانیت اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھا اور اس گناہ کا مرتکب ہوا۔ راون کے اس اقدام کے اثرات اتنے دور رس ہیں کہ صدیوں تک لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوں گے۔ راون پاپ کی تیسری قسم کا مرتکب ہوا ہے جس کی معافی ممکن نہیں۔ اس لیے میں راون کو معاف نہیں کر سکتا۔"
یہ وہ اخلاقی معیار ہے جو اس خطے کی پیداوار ہے اور جو صدیوں کی مسافت اور سینکڑوں نظریات کی ملاوٹ کے باوجود اب بھی کسی نا کسی شکل میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آپ اس کا موازنہ کسی سے بھی کر لیں۔ ان معیارات سے جو اب یہاں رائج ہیں یا ان سے جو ماضی کا حصہ رہ چکے ہیں۔
میں عادت سے مجبور اس واقعے کو پاکستان کے حالات میں دیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے طول و عرض میں کوئی ایک پی سی سولنکی نظر نہیں آتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کوئی کیس عدالت تک پہنچتا ہی نہیں۔ دبی دبی سسکیاں عدالت سے باہر دم توڑ دیتی ہیں۔
Muhammad Talha Shafiq
Comments
Post a Comment